Open top menu

اخلاق کی تعریف اخلاق خُلق کی جمع ہے۔ خَلق اور خُلق دو جدا جدا لفظ ہیں ۔خَلق سے مراد صورت ظاہری ہے اور خُلق سے مراد صورت باطنی کیونکہ انسان جس طرح جسم سے ترکیب دیا گیا ہے اور ہاتھ پاؤں اور آنکھ کان وغیرہ اعضاء اس کو مرحمت ہوئے ہیں ۔جن کا قوت بصارت یعنی چہرے کی آنکھیں ادراک کر سکتی ہیں ،اس طرح انسان روح اور نفس سے ترکیب دیا گیا ہے اور اس کا ادراک بصیرت یعنی دل کی آنکھ کرتی ہے ۔یہ ترکیب ان ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتی اور ان دونوں ترکیبوں میں حق تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو جدا جدا صورت اور قسم قسم کی شکلوں پر پیدا فرمایا ہے کہ کوئی صورت اور سیرت حسین اور اچھی ہے اور کوئی سیرت اور صورت بری اوربھونڈی ہے ۔ظاہری ہئیت اور شکل کو صورت کہتے ہیں اور باطنی شکل اور ہئیت کو سیرت کہتے ہیں ۔سیرت کا مرتبہ صورت سے بڑھا ہوا ہے کیونکہ اس کو حق تعالیٰ نے اپنی جانب منسوب کیا ہے چنانچہ وَنَفَخْتُ فِیْہٰ مِنْ رُّوْحِی یعنی آدم علیہ السلام کے پتلے میں میں نے اپنی روح کو پھونک دیا ۔اس آیت کریمہ میں روح کو اپنا کہہ کر ذکر فرمایا اور قُلِ الرُّوْحْ مِنْ اَمْرِ رَبّیْ
یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئے کہ روح میرے پروردگار کا امر ہے ۔
اس میں اس امر کا اظہار فرمایا ہے کہ روح امر ربّی ہے اور جسم کی طرح سفلی اور خاکی نہیں ہے ۔کیونکہ جسم کی نسبت مٹی کی جانب فرمائی ہے ۔جیسا کہ ارشاد ہے وَاِنّیْ خَا لِقٌ بَشَراً مِّنْ طِیْنٍ
اس مقام پر روح سے مراد وہ شے ہے جو حق تعالیٰ کے الہام اور القاء سے اپنی اپنی استعداد کے موافق اشیاء کی معرفت اور ادراک حاصل کر سکتی ہے۔ ترکیب کی شکل اور ہئیت میں حسن موجود نہ ہوگا اس وقت تک انسان کو خوب صورت نہیں کہا جا سکتا اور چونکہ اس صورت کے اعضاء ہاتھ پاؤں کی طرح سیرت کو بھی اللہ تعالیٰ نے باطنی اعضاء مرحمت فرمائے ہیں جن کا نام قوت علم و قوت غضب و قوت شہوت و قوت عدل ہے ۔لہٰذا جب تک یہ چاروں اعضاء سڈول اور متناسب اور حد اعتدال پر نہ ہونگے اس وقت تک سیرت کو حسین نہیں کہا جائے گا ۔ان باطنی اعضاء میں جو بھی کمی بیشی ہو گی اس کی مثال ایسی ہوگی جیسے کسی کی ظاہری شکل و صورت جسمیہ میں افراط و تفریط ہو کہ پاؤں مثلاً گز بھر ہوں اور ہاتھ تین گز کے یا ایک ہاتھ مثلاً آدھا گز کا ہو اور دوسرا گز بھر کا اور ظاہر ہے کہ ایسا آدمی خوب صورت نہیں کہا جائے گا ۔پس اسی طرح اگر کسی کی قوت غضبیہ مثلاً حد اعتدال سے کم ہو اور قوت شہوانیہ اعتدال سے بڑھی ہوئی ہو تو اس کو خوب سیرت نہیں کہہ سکتے ۔اب چاروں اعضائے مذکورہ کا اعتدال اور تناسب اور حسن بیان کیا جاتا ہے۔
اول قوت علم :-
اس کا اعتدال یہ ہے کہ انسان اس کے ذریعے سے اقوال کے اندر سچ جھوٹ میں امتیاز اور اعتقادات کے متعلق حق اور باطل میں فرق کر سکے اور اعمال میں حسن و قبح یعنی اچھا اور برا پہچان سکے ۔پس جس وقت یہ صلاحیت پیدا ہو جائے گی تو اس وقت حکمت کا وہ ثمرہ پیدا ہوگا جس کو حق تعالیٰ بایں الفاظ ارشاد فرماتے ہیں ۔ وَمَنْ یُّوْتَی الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْراً کَثِیْراً
یعنی جس کو حکمت عطا ہوئی اس کو خیر کثیر عطا ہوئی اور حقیقت میں تمام فضیلتوں کی اصل اور جڑ یہی ہے ۔
دوم و سوم قوت غضب اور قوت شہوت:-
ان کا اعتدال اور حسن یہ ہے کہ دونوں قوتیں حکمت و شریعت کے اشارے پر چلنے لگیں ۔اور مہذب اور مطیع شکاری کتے کی طرح شریعت کے فرمانبردار بن جائیں کہ جس طرح بھی شریعت ان کو چلائے بلا عذر و بلا تامل اس جانب چلنے لگیں ۔اور جس طرف سے روکیں فوراً رک جائیں ۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ زیادہ قابل لحاظ امر ربانی یعنی سیرت انسانی ہے کہ جب تک اس باطنی
چہارم قوت عدل:-
اس کا اعتدال یہ ہے کہ قوت غضب اور قوت شہوت دونوں کی باگ اپنے ہاتھ میں لے اور ان کو دین اور عقل کے شارے کے ماتحت بنائے رکھے ۔گویا عقل تو حاکم ہے ،اور یہ قوت عدل اس کی پیشکار ہے کہ جدھر حاکم کا اشارہ پاتے ہیں فوراً اسی جانب جھک جاتے ہیں ۔اور اس کے موافق احکام جاری کر دیتے ہیں ۔اور قوت غضبیہ و شہوانیہ گویا شکاری مرد کے مہذب کتے ہیں یا فرمانبردار گھوڑے کی طرح ہیں کہ ان میں حاکم کا حکم اور ناصح کی نصیحت کا نفاذ اور اجراء ہوتا ہے ۔
پس جس وقت یہ حالت قابل اطمینان اور لائق تعریف ہو جائے گی اس وقت انسان صاحب حسن خّلق اور خوب سیرت کہلائے گا ۔قوت غضب کے اعتدال کا نام شجاعت ہے ۔اور یہی عند اﷲ پسندیدہ ہے ۔ کیونکہ اگر اس میں زیادتی ہوگی تو اس کا نام تہوّر اور بے باکی ہوگا ۔اور اگر کمی ہوگی تو بزدلی و جبنیت کہلائے گی ۔اور ظاہر ہے کہ یہ دونوں حالتیں نا پسندیدہ ہیں ۔حالت اعتدال یعنی شجاعت سے لطف و کرم ،دلیری و جودت و بردباری استقلال نرمی و ملاطفت اور غصہ کے ضبط کا مادہ نیز ہر کام میں دور اندیشی و وقار پیدا ہوتا ہے ۔اور اگر زیادتی ہوتی ہے تو نا عاقبت اندیشی ،ڈینگ مارنا،شیخی بگھارنا،غصہ سے بھڑک اٹھنا ،تکبر اور خود پسندی ہی پیدا ہوتی ہے ۔اور اگر اس میں کمی ہوتی ہے تو بزدلی و ذلت بے عزتی ،کم ہمتی ،خساست ،کمینہ پن،اور وہ حرکات ظاہر ہوتی ہیں جو چھچھور پن کہلاتی ہیں ۔
قوت شہوت کی حالت اعتدال کا نام پارسائی ہے ۔پس اگر شہوت اپنے حد اعتدال سے بڑھ جائے گی تو حرص و ہوا کہلائے گی ۔حالت معتدل یعنی پارسائی اللہ پاک کو پسند ہے اور اس کے جو فضائل پیدا ہوتے ہیں وہ سخاوت ،حیا، صبر ، قناعت و اتقاء، کہلاتے ہیں ۔طمع کم ہو جاتی ہے ۔خوف و خشیت اور دوسروں کی مدد کرنے کا مادہ پیدا ہوتا ہے اور اعتدال سے بڑھنے اور گھٹنے سے حرص و لالچ ،خوشامد ،چاپلوسی ،امراء کے ساتھ تذلل،اور فقراء کو بنظر حقارت دیکھنا ، بے حیائی ،فضول خرچی ،ریا ،تنگ دلی ،نا مردانگی ،اور حسد وغیرہ خصائلِ بد پیدا ہوتے ہیں ۔قوت عقل میں اگر اعتدال ہوتا ہے تو انسان مدبر اور منتظم اور ذکی اور سمجھ دار ہوتا ہے ۔اس کی رائے صائب﴿درست﴾ہوتی ہے اور ہر مضمون میں اس کی طبیعت چلتی ہے ۔اور جودت دکھلاتی ہے اور اگر حد اعتدال سے بڑھ جائے تو دھوکہ بازی ،فریب دہی ،اور مکاری کہلاتی ہے ۔اور اگر عقل کی قوت میں کسی قسم کا نقصان اور ضعف ہو گا تو کند ذہنی و حماقت اور بے وقوفی کہلائے گی ۔جس کا اثر یہ ہوگا کہ ایسا آدمی جلدی دوسرے کے دھوکے میں آجائے گا ۔
غرض جس وقت یہ ساری قوتیں حد اعتدال پر ہونگی تو اس وقت انسان کو خوب سیرت کہا جائے گا ۔کیونکہ اعتدال سے بڑھنا اور گھٹنا دونوں حالتیں حسن سے خارج ہیں ۔
خَیْرُ الاُمُوْرِاَوْسَا طُھَا نیزحق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہمارے بندے وہ ہیں کہ نہ وہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل بلکہ اس کے بین بین حالت پر رہتے ہیں ۔
جس طرح حسن ظاہری میں کمی و بیشی ہوتی ہے کہ کوئی زیادہ خوب صورت ہے اور کوئی کم اسی طرح حسن باطنی میں بھی لوگ متفاوت ہوتے ہیں ۔پس سب سے زیادہ حسین سیرت تو سرور عالم رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کہ آپ کی شان میں یہ آیت کریمہ اِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْمٍ نازل ہوئی ہے ۔ آپ کے بعد جس مسلمان کو آپ کے اخلاق کے ساتھ جتنی مناسبت ہوگی اسی قدر اس کو حسین سیرت کہیں گے اور ظاہر ہے کہ سیرت باطنی میں جس قدر بھی جس کو حسن حاصل ہوگا اسی قدر اس کو سعادت اخروی حاصل ہوگی۔
Tagged
Different Themes
Written by Lovely

Very Nice

No related article available